Thursday, April 7, 2011

Zia Khairabadi on community's moral turpitude

قومی پسماندگی اوراخلاق کی کمزوری

سیّد ضیا خیرابادی

اِ س حقیقت سے اِنکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہمارا مُلک قو می پسماندگی کے لِحاِظ سے بہُت بد نصیب ہے۔ہمیں اپنی اُن کوتاہیوں کا بھی شدید اِحساس ہے کہ حُصولِ آزادی کے بعد بھی ہم وطن عزیز کی حَسین پیشانی سے اِس بد نُما دا غ کو نہیں مِٹا سکے۔ قو میں کِن حالات میں آگے بڑھتی ہیں اور کِس ماحو ل کے سہارے ترقی کی منز لیں طے کرتی ہیں۔

ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے ذمہِ دار مُصلحین نے دیانتداری کے ساتھ اپنا فرض نہیں پہچا نا ور نہ آج صورتِ حال کُچھ اور ہوتی۔ یہاں میرا مقصد کِسی کی کو شِشوں کو جھُٹلانا یا حُکو مت کے مجو زہ پروگراموں اور پالِسیوں پر نکتا چینی کر نا نہیں ہے بلکہ میں تو قوم کی قِسمت بدلنے کا مُقدّس عزم رکھنے والوں کے لئے دست بدعا ہوں کہ خُدا اُنہیں فِکرو نظر کی صداقت اور سچّے عمل کی تو فیق عطا فرمائے۔اِس میں شک نہیں کہ ہماری قوی پسماندگی میں مُفید عالیٰ تعلیم کا فقدان، معاشی و سائل کی کمی،سستی اور

گندی سیاست ،روایت پر ستی اور تعصبانہ ذہنیت کا بڑا دخل ہے۔

آزادی سے قبل ہمارا عقیدہ تھا کہ آزادی مِلتے ہی ہمارا مُلک ’فِردوس بر روئے زمیں است‘ بن جائے گا۔ لیِکن آزادی حاصِل کر نے کے بعد بھی خو شگور تبدیلی نہ ہوئ۔اِنسانی زندگی کی تین شدید ضرورتیں یعنی خوراک،کپڑا اور مکان آج بھی ہماری قومی گُتھیاں بنی ہوئ ہیں جِن کو سُلجھائے بغیر ہم قومی پسماندگی کو دور نہیں کر سکتے۔

کیا یہ سہی ہے کہ ہماری تکالیف اور پریشانیوں کی افزائش کی تمام تر ذمہِ داری حکومت کے سر ہے؟ کیا روز بروز بڑھتی ہوئ مہنگائ

رِشوت خوری،بے ایمانی اور مِلاوٹ جیسی برُا یئوں میں عوام کا ہاتھ نہیں؟ یہ ا جناسِ خوردنی چھُپا نے والے،روزبروز مِہنگائ بڑھانے والے، ایک دوسرے کا گلا گھو نٹ کر اپنی جیب گرم کر نے والے ہم اور آپ نہیں تو پھِر کون ہے؟ حکُو مت ہمارے ہر فعِل اور قول میں دخل اندازی کر نے سے تو قا صِر ہے۔اور جب تک افراد خود سنبھلنے

کی کو شِش نہ کر یں اُنہیں کوئ نہیں سنبھال سکتا۔ہمارا ماحول بھائ چارے اور آپسی میل ومحبّت کے بجائے گھٹیا در جے کی سیاست، خود غرضی اور لالچ سے بھرا ہوا ہے۔

جہاں تک ہمارے ذہنوں کا تعلق ہے سو ائے اپنے ذاتی مفاد کے قومی اور سماجی سطح پر ہم کُچھ سوچ بھی نہیں سکتے یا ہم سو چنا نہیں چاہتے۔ہم میں جب تک خود غرضی اور

لالچ، بغض و حسد جیسے مُہلِک جراثیم مو جود ہونگے اُس وقت تک ہم قومی،معاشی،اخلاقی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کے اندھیرے غار میں پڑے سِسکتے رہیں گے۔

یہ جھوٹ،فریب، دھوکا دہی،رشوت ستانی کالا بازاری اور فِر قہ پرستی کے کالے ناگ جو ہمارے دِل و دِماغ پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔اور جِن کی وجہہ سے نہ ہم میں جذبہ رحم دِلی ہے اورنہ جذ بہ اِنسانیت اور نہ ہی ہم اِن بُرایئوں سے الگ ہٹ کر کُچھ سوچ سکتے ہیں اور اِن سے نِجات اُس وقت تک نہیں مِل سکتی جب تک ہم مُتحد ہو کر قومی سطح پر اِس کا سدِّ باب نہیں کرتے۔اِس کا ایک اور بس ایک واحِد عِلاج ہے کہ ہمارے تعلیمی اور سما جی اِدارے و سو سائٹیاں و تنظیمیں اور خود افراد بھی اخلاقی بلندی اور قومی وسماجی یک جِہتی کی طرف تو جہ دیں۔اِس سِلسلے میں ہماری تعلیم اور تعلیمی اِدارے بہت اہم رول ادا کر سکتے ہیں قومی پسماندگی سے نِجات صِرف جدید علوم اور معا شی اِستحکام حا صِل کرکے نہیں بلکہ اخلاق و ا یمان کی روشنی سے حاصِل کی جا سکتی ہے۔لِہازا یہ ہمارے اسا تذہ کی ذمہِ داری ہے کہ وہ بچّوں میں مُختلِف علوم کی تدریس و تربیت کے ساتھ ساتھ بچّوں میں اخلاقی بلندی کی تر بیت کو اپنے تدریسی پرُگرام کا لازمی جُز قرار دیں تاکہ ہمارے طُلبا جدید عُلوم کی روشنی کے ساتھ ساتھ ایمان واخلاق کی روشنی سے منوّر قو می پسما ندگی کو دور کرنے میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔کیونکہ اخلاقی بلندی ہماری قومی یک جہتی کی بنیاد ہے۔

جِس میں اخلاق ہوگا وہ اپنے آپ کو ایک اچھا اِنسان اور ایک اچھا شہری کہنے کا مُستحق ہے۔

لِہازا ہم خود بھی نِجی طور پر اپنے خاندان میں،اپنے رِشتہ داروں میں اور اپنے دوستوں میں اخلاقی بلندی کا پر چار کر سکتے ہیں۔اور اِس طرح مُستقبِل میں ہم ب مِل کرایک دِل، ایک آواز اور ایک مقصد ہو کر ایک ہی منزل کی طرف رواں دواں ہونگے اور وہ منزل حقیقت میں ہماری اور مُلک کی ترقی اور خو شحا لی کی منزل ہوگی۔

No comments:

Post a Comment